گرمی
– علامہ محوی صدیقی
Garmi
By Allama Mahvi Siddiqui
کیا ہی گرمی پڑ رہی ہے آج کل
کل نہیں ملتی کسی کو ایک پل
تپ رہی ہے ریت ، پتّھر گرم ہیں
گھر کی دیواریں ، چھتیں ، در گرم ہیں
تو ٗ کچھ ایسی گرم ، جھلسا دے ہمیں
دھوٗپ ایسی تیز ، پگھلا دے ہمیں
سیر کو باغوں میں کوئی جائے کیا
چل رہی ہے گرم شعلہ سی ہوا
ہوتا ہے چھڑکاؤ اکثر شام کو
صحن میں ٹھنڈک نہیں ہے نام کو
لو اِدھر چھڑکا ، اُدھر سوٗکھی زمیں
کیوں نہ ہو ، دن بھر کی پیاسی تھی زمیں
پیتے ہیں شربت کا جب ٹھنڈا گلاس
تب کہیں جاکر بجھے دم بھر کو پیاس
ہر بچھونا ، چار پائی گرم ہے
چادریں ، تکیے ، رضائی گرم ہے
ہم رہے بے چین آدھی رات تک
تب کہیں مشکل سے جھپکی ہے پلک
ندّیاں سوٗکھی ہیں ، نالے خشک ہیں
کھیت اور باغوں کے تھالے خشک ہیں
سوٗکھ کر کانٹا ہوئے ہیں جانور
ہے بلا کی پیاس ، گرمی اس قدر
تپ رہے ہیں آگ سے سارے پہاڑ
جل رہے ہیں دھوٗپ کے مارے پہاڑ
دور ہو اللہ ، یہ گرمی کہیں
مبینہ پڑ جائے تو کچھ تر ہو زمیں
0 Comments