Intikhab-e-Nazeer Akbarabadi|انتخاب نظیر اکبر آبادی

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Intikhab-e-Nazeer Akbarabadi|انتخاب نظیر اکبر آبادی

 

فہرست انتخاب نظیرؔ اکبر آبادی

تصحیح و ترتیب
رشید حسن خان

Index of Intikhab-e-Nazeer Akbarabadi

By Rasheed Hasan Khan

دیئے گئے انتخاب میں سے   نظم ، غزل یا مخمس کو پڑھنے کے لئے عنوان پر کلک کریں

 

کہتے ہیں جس کو نظیرؔ سُنیے ٹُک اُس کا بیان

 منظو م تعارف نظیر ؔکی زبانی

۱

یارب! ہے تیری ذات کو دونوں جہاں میں برتری

حمد

۲

اِس ارض و سما کے عرصے میں یہ، جتنا کَھچّم کَھچّا ہے

حمد (بہ طرزِ مناجات)

۳

پہلے اُس ختمِ رسالت سے کہو عشق اللہ

عشق اللہ

۴

ہیں دو جہاں کے سلطاں حضرت سلیم چشتی

حضرت سلیم چشتی

۵

ہیں کہتے نانک شاہ جنھیں، وہ پورے ہیں آگاہ گُرو

گرونانک شاہ

۶

ہے یہ  مجمع نکوسِرِشتی کا

حضرت سلیم چشتی کا عرس

۷

رنگ ہے، روپ ہے، جھمیلا ہے

بلدیو جی کا میلہ

۸

کیونکر کرے نہ اپنی نموداری شب برات

شب برات

۹

ہے عابدوں کو طاعت و تجرید کی خوشی

عید الفطر

۱۰

جب پھول کا سرسوں کے ہوا آکے کھِلتا

بسنت

۱۱

مل کر صنم سے اپنے ہنگامِ دل کُشائی

بسنت

۱۲

پھر آن کے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر

ہولی

۱۳

آجھمکے عیش و طرب کیا کیا، جب حُسن دکایا ہولی نے

ہولی

۱۴

جب پھاگن رنگ جھمکتے ہوں ، تب دیکھ بہاریں ہولی کی

ہولی کی بہاریں

۱۵

ہر اک مکاں مین جلا پھر دیا دوالی کا

دوالی

۱۶

چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی

راکھی

۱۷

کیا ابر کی گرمی میں گھڑی، پہر ہے اومس

اُمس

۱۸

ہیں اس ہوا میں کیا کیا برسات کی بہاریں

برسات کی بہاریں

۱۹

برسات کا جہاں میں لشکر پھسل پڑا

برسات اور پھسلن

۲۰

اہل سخن کو ہے گا اک بات کا تماشا

برسات کا تماشا

۲۱

ساقیا! موسم برسات ہے کیا روح فزا

موسمِ برسات

۲۲

چمن میں آج نسیمِ بہار آپہنچی

بہار

۲۳

جب ماہ اگن کا ڈھلتا ہو، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

جاڑے کی بہاریں

۲۴

لاتی ہے جب اپنی یہہ شروعات اندھیری

اندھیری

۲۵

کیا دن تھے یارو وہ بھی، تھے جب کہ بھولے بھالے

طفلی

۲۶

کیا عیش کے رکھتی ہے سب آہنگ جوانی

جوانی

۲۷

کیا قہر ہے یارو، جسے آجائے بُڑھاپا

بُڑھاپا

۲۸

ہیں مرد اب وہی کہ جنھوں کا ہے فن درست

تندرستی

۲۹

جب آدمی کے حال پہ آتی ہے مفلسی

مُفلسی

۳۰

ہے اب تو کچھ سخن کا مرے کارو بار بند

شہر آشوب

۳۱

کوڑی ہے کن کے پاس ،وہ اہل یقین ہیں

کوڑی نامہ

۳۲

پیسے ہی کا امیر کے دل میں خیال ہے

پیسا نامہ

۳۳

دُنیا میں کو ہے جو نہیں ہے فداے زر

تلاشِ زر

۳۴

نقش یاں جس کے میاں ہاتھ لگا پیسے کا

پیسا

۳۵

نقشا ہے عیاں سو طرب و رقص کی رائے کا

روپیا

۳۶

جب آدمی کے پیت میں آتی ہیں روٹیا

روٹیاں

۳۷

جب ملی روٹی ہمیں، سب نورِ حق روشن ہوئے

چپاتی نامہ

۳۸

کرتا ہے کوئی جو رو جفا پیٹ کےلیے

پیٹ کی فلاسفی

۳۹

کیا کہوں نقشا میں یارو، خلق کے احوال کا

آٹا دال

۴۰

دنیا میں اپنا جی کوئی بہلا کے مر گیا

موت

۴۱

کی وصل میں دل برے، عنایات تو پھر کیا

عالمِ گُذراں

۴۲

گر شاہ، سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا

فنا نامہ

۴۳

بٹ مارا جل کا آپہنچا، ٹک اُس کو دیکھ ڈرو بابا

فقیروں کی صدا

۴۴

ٹک حرص و ہو اکو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

بنجارا نامہ

۴۵

دُنیا میں کوئی خاص ، نہ کوئی عام رہے گا

رہے نام اللہ کا

۴۶

دُنیا میں کوئی شاد، کوئی دردناک ہے

فنا

۴۷

پڑھ علم کئی اِس دنیامیں گرکا مل،ذی ادر اک ہو ئے

فنا

۴۸

دُنیا کے بیچ یارو، سب زیست کا مزا ہے

موت

۴۹

جب یار نے اُٹھائی چھڑی، تب خبر ہوئی

خوابِ غفلت

۵۰

جہاں ہے جب تلک، یاں سیکٹوں شادیّ و غم ہوں گے

تنبیہہُ الغافلین

۵۱

دل خوشامد سے ہر اک شخص کا کیا راضی ہے

خوشامد

۵۲

زر کی جو محبت تجھے پڑ جاوے گی بابا

فقیروں کی صدا

۵۳

زردار ہے تو ہر گز مت مار اپنے من کو

ترغیبِ سخاوت و عشرت

۵۴

اے دل کہیں تو جا کے نہ اپنی زباں ہلائے

توکّل

۵۵

بھرے ہیں کیا کیا اُلٹ پلٹ کر کسی میں آکر یہ دم کسی کے

ترک و تجرید

۵۶

جو فقر میں پورے ہیں، وہ ہر حال میں خوش ہیں

تسلیم و رضا

۵۷

جتنے تو دیکھتا ہے یہہ  پھل، پھول، پات، بیل

توکّل و ترک و تجرید

۵۸

آہ کیا کہیے، رہی یاں جب تلک اپنی حیات

طلسم زندگی

۵۹

تنہا نہ اُسے اپنے دلِ تنگ میں پہنچان

عاشق نامہ

۶۰

دنیا میں بادشا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی

آدمی نامہ

۶۱

کیا کیا جہاں میں اب ہیں ہماری سواریاں

سواریاں

۶۲

لے آہنے کو ہاتھ میں اور بار بار دیکھ

آئینہ

۶۳

دُنیا ہے اک نگارِ فریبندہ جلوہ گر

دُنیا

۶۴

یہہ جواہر خانہ دنیا جو ہے با آب وتاب

جواہر خانہ دُنیا

۶۵

کہاں یہہ دل نے مجھے دیکھ کر شبِ مہتاب

دُنیا کے عیش و عشرت

۶۶

ہے دُنیا جس کا نانو میاں ، یہہ زور طرح کی بستی ہے

دُنیا کی نیکی بدی

۶۷

یہ پینٹھ عجب ہے دُنی کی ، اور کیا کیا جنس اکھٹی ہے

دُنیا دھوکے مٹٹی ہے

۶۸

کیا کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا

دُنیا کے مکر و دغا

۶۹

دُنیا عجب بازار ہے، کچھ جنس یاں کی ساتھ لے

دُنیا دارُالمکافات ہے

۷۰

یہ جتنا خلق میں اب جا بہ جا تماشا ہے

دنیا بھی کیا تماشا ہے

۷۱

جہاں میں کیا کیا خرد کے اپنی ہر ایک بجاتا ہے شادیانے

اسرارِ قدرت

۷۲

خوں ریز کرشمہ، ناز ستم، غمزوں کی جُھکاوٹ ویسی ہے

پری کا سراپا

۷۳

صحن چمن میں واہ وا، زور بچھیتھی چاندنی

چاندنی رات

۷۴

رات لگی تھی واہ واہ ، کیا ہی بہار کی جھڑی

جھڑی

۷۵

جب سے تم کو لے گیا ہےیہ فلک اظلم کہیں

فراق

۷۶

مجھے اے دوست تیرا ہجر اب ایس استاتا ہے

سوزِ فراق

۷۷

نظر آیا مجھے اک شوخ، ایسا نازنیں  چنچل

طلسم و صوال

۷۸

جہاں میں نام تو سنتے تھے ہم جدائی کا

جُدائی

۷۹

اِدھر کو جس گھڑی اے ہم نشیں، وہ یار آیا

ملاقاتِ یار

۸۰

اپنے غم خواروں سے وئی آن ہنس لے، بول لے

حسن و جمال کو غنیمت سمجھو

۸۱

یارو، سنو ذرا، یہ عجب سیر ہے بڑی

خواب کا طلسم

۸۲

کورے برتن، ہیں کیاری گُلشن کی

کورا برتن

۸۳

کیا موسمِ گرمی میں نمودار ہے پنکھا

پنکھا

۸۴

میاں یہ کس پری کے ہاتھ پر عشق ہوئی مہندی

مہندی

۸۵

کچھ دل فریب ہاتھ وہ، کچھ دل رُبا حنا

حنا

۸۶

پہنچے نہ اُس کو ہر گز کا بل درے کی ککڑی

ککڑی

۸۷

تم نے جس دن سے صن کام میں ڈالا بالا

بالا

۸۸

کیوں نہ جھمک کر کرے جلوہ کری پنکھیا

پنکھیا

۸۹

دیکھ تیرا یہہ جھمکتا ہوا اے جاں بٹوا

بٹوا

۹۰

یارو، جو تاج گنچ یہاں آشکار ہے

تاج گنج کا روضہ

۹۱

 

 

 

 

 

 

 

غزلّیات

 

مُخمس

Post a Comment

0 Comments