دستر
خوان -وزیر آغا
Dastarkhwan by Wazir Aaga
ایک
زما نہ تھا کہ لو گ فر ش پر دستر خوان بچھا تے ، آ لتی پا لتی ما ر کر بیٹھتے اور
ایک دا سرے کی آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر کھا نا کھا تے ۔ پھر جو زما نہ بدلا
تو ان کے نیچے کر سیا ں اور سامنے میز بچھ گئی جس پر کھا نا چن دیا جا تا ۔ پہلے
وہ سر جو ڑ کر کھاتے تھے،اب سروں کے درمیان فاصلہ نمو دار ہوا اور روبرو بیٹھا ہوا
شخص مد مقا بل نظر آ نے لگا ۔مگر زما نہ کبھی ایک حالت میں قیام نہیں کر تا۔ چنا
نچہ اب کی با ر و جو اس نے کر وٹ بدلی تو سب سے پہلے پلیٹ کو ہتھیلی پر سجا کر سرو
قد کھڑے ہو کر طعام سے ہم کلام ہو نے کی روایت قا ئم ہو ئی۔ پھر ٹہل ٹہل کر اس پر
طبع آ زما ئی ہو نے لگی ۔ انسان اور جنگل کی مخلوق میں جو ایک واضح فرق پیدا ہو
گیا تھا کہ انسان ایک جگہ بیٹھ کر کھا نا کھا نے لگا تھا جبکہ جنگلی مخلوق چرا گا
ہوں میں چرتی پھر تی تھی اور پرندے دانے دُنکے کی تلا ش میں پو رے کھیت کو تختہ
مشق بنا تے تھے،اب با قی نہ رہا اور مد توں کے بچھڑے ہو ئے سینہ چا کا نِ چمن ایک
با ر پھر اپنے عزیزوں سے آملے۔
اگر مجھ سے پو چھا جا ئے کہ کیا ہما
ری تہذیب کا گرا ف نیچے سے اوپر کی طرف گیا ہے تو میں کہوں گا کہ بے شک ایسا ہر گز
نہیں ہوا ہے کیو نکہ ہم نے فرش پر چو کڑی ما ر کر بیٹھنے کی روایت ترک کر کے ،کھڑے
ہو کر اور پھر چل کر کھا نا کھا نے کے تیروے کو اپنا لیا ہے جو چرنے اور دانہ دنکا
چگنے ہی کا ایک جدید روپ ہے۔ کسی بھی قوم کے اوپر جا نے یا نیچے آ نے کا منظر
دیکھنا مقصود ہو تو یہ نہ دیکھیے کہ اس کے قبضہ قدرت میں کتنے علا قے اور خزانے آ
ئے یا چلے گئے ،فقط یہ دیکھیے کہ اس نے طعام کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟
بچپن کی با ت ہے ۔ ہما رے گا ؤں میں
ہر سال کپڑا بیچنے والے پٹھا نوں کی ایک ٹولی وارد ہو تی تھی۔ یہ لو گ سا را دن گاؤں گا ؤں پھر کر
کپڑابیچنے کے بعد شام کو مسجد کے حجرے میں جمع ہو تے اور پھر وہ زمین پر کپڑا بچھا
کر دائرے کے انداز میں بیٹھ جا تے ۔درمیان میں شوربے سے بھری ہو ئی پرات بحرا
لکاہل کا منظر دِکھا تی جس میں گو شت کی بو ٹیاں ننھے منے جزیروں کی طرح اُبھری ہو
ئی دِکھاتی دیتیں ۔ وہ ان بو ٹیوں کو احتیا ط سے نکا ل کر ایک جگہ ڈھیر کر دیتے
اور شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑے بھگوکر ان کا ملیدہ سا بنا نے لگتے ۔ جب ملیدہ تیا ر
ہو جا تا تو شر کا ئے طعام پو ری دیا نت داری کے ساتھ آپس میں بو ٹیا ں تقسیم کر
تے اور پھر اللہ کا پا ک نا م لے کر کھا نے کا آ غا ز کر دیتے ۔ وہ کھا نا رُک
رُک کر ، ٹھہر ٹھہر کر کھا تے مگر بغیر رُکے بے تکا ن بولتے۔ مجھے ان کے کھا نے کا
اندازبہت اچھا لگتا تھا ۔ میں انھیں دیکھتا اور خوش ہو تا ۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر
خوش ہو تے اور برا درانہ محبت میں لتھڑاہوا ایک آدھ لقمہ میری طرف بھی بڑھا دیتے
۔ان میں سے جب ایک شخص لقمہ مرتب کر لیتا تو پہلے اپنے قریبی سا تھیوں کو پیش کر
تا اور ادھر سے جزاک اللہ کے الفاظ و صول کر نے کے بعد اپنے منہ میں ڈالتا ۔ محبت
اور بھا ئی چا رے کا ایک ایسا لا زوال منظر آنکھوں کے سامنے اُبھرتا کہ میں حیرت
زدہ ہو کر انھیں بس دیکھتا ہی چلا جا تا اور تب میں دستر خوان پر کھا نا کھانے کے
اس عمل کا اپنے گھر والوں کے طرز عمل سے وموازنہ کر تا تو مجھے بڑی تکلیف ہو تی
کیو نکہ ہما رے گھر میں صبح و شام ہانڈی تقسیم کر نے والی بڑی خالہ کے گردا گرد
بچوں کا ایک ہجوم جمع ہو جا تا ۔ مجھے یا د ہے ،جب بڑی خالہ کھا نا تقسیم کر رہی
ہو تیں تو ہما ری حریص آ نکھیں ہا نڈی میں ڈوئی کے غوطے لگانے اور پھر وہا ں سے
بر آ مد ہو کر ہما رے کسی سنگی سا تھی کی رکا بی میں اُتر نے کے عمل کو ہمیشہ شک
کی نظروں سے دیکھتیں۔اگر کسی رکا بی میں نسبتاً بڑی بو ٹی چلی تو بس قیا مت ہی آ
جا تی ۔ ایسی صورت میں خالہ کی گر جدار آ واز کی پر وانہ کرتے ہو ئے ہم بڑی بو ٹی
والے کی تکا بوٹی کر نے پر تیا ر ہو جا تے اور چھینا چھپٹی کی اس روایت کا ایک
ننھا سا منظر دکھا تے جو نئے زما نے کے تحت اب عام ہو نے لگی ہے۔
اس زما نے میں کبھی کبھار ایک انگریز
افسر بھی والد صاحب سے کھوڑے خریدنے آجاتا ۔ والد صاحب اس کے لیے میز کر سی
لگواتے ،انگریزی کھا نا تیا ر کرواتےاورپھرگھنٹوں اس کےساتھ بیٹھ کر کھانا کھا تے
۔ ہمیں اس سے بہت ڈرلگتا تھا اس لیےہم اکثر کھڑکی کی جالی کے ساتھ چہرہ لگا کراسے
کھاناکھاتےہوئے دیکھتےاورحیران ہوتے کہ صاحب بہادر کھاناکھارہا ہے آپریشن
کررہاہے۔وہ اپنی پلیٹ میں ایک اُبلاہواآلولے بیٹھ جاتااور پھرچھریوں اور کانٹوں
سے گھنٹوں اس کے پر خچے اُڑاتا رہتا۔ یوں لگتا جیسے وہ میدان جنگ میں کھڑا ہے ۔
آلو اس کا دشمن ہے جسے وہ اپنے اسلحے کی مدد سے زیر کرنے میں مصروف ہے۔ وہ جو
کھانے کے معاملے میں رواداری ،مفاہمت اور لطف اندوزی کا رویہ ہو تا ہے اس انگریز
افسر میں مجھے قطعاً نظر نہ آیا ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ دسترخوان پر بیٹھ
کر کھانا کھانے کی روایت پر بیٹھ کر کھا نا کھا نے کی روایت ہما را عزیز ترین
ثقافتی ورثہ تھا۔ اب یہ روایت اوّل تو کہیں نظر ہی نہیں آتی اور کہیں نظر آ جا
ئے تو ما رے شرمندگی کے فی الفور خود میں سمٹ جا تی ہے۔ حالانکہ اس میں شامندہ
ہونے کی قطعاً کوئی با ت نہیں ۔بلکہ میں کہوں گا کہ دسترخوان پر بیٹھنا ایک ہذیبی
اقدام ہے جب کہ کھڑے ہو کر کھا نا ایک نیم و حشی عمل ہے مثلاً یہی دیکھیے کہ جب
آپ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو دائیں با ئیں یا سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے آپ کے
برادرانہ مراسم فی الفوراستوارہوجاتےہیں۔آپ محسوس کرتے ہیں جیسے چند ساعتوں کے
لیے آپ دونوں ایک دوسرے کی خوشیوں ،غموں اور بوٹیوں میں شریک ہو گئےہیں۔چنانچہ جب
آپ کےسامنےبیٹھا ہوا آپ کاکرم فرمادریا دلی اور مروّت کا مظا ہرہ کر تے ہو ئے
اپنی پلیٹ کا شامی کباب آپ کی رکابی میں رکھ دیتا ہے تو جواب آں غزل کے طور پر
آپ بھی اپنی پلیٹ سے مرغ کی ٹانگ نکال کر اسے پیش کر دیتے ہیں۔اس کے بعد کھانا
کھانے کے دوران لین دین کی وہ خوشگوار فضا از خود قائم ہو جا تی ہے جو ہماری برس
کی تہذیب کا مظہر ہے۔ ایک لحظہ کے لیے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوتا کہ سامنے بیٹھا
ہوا شخص آپ کا مدِمقابل ہے اور اگر آپ کی ذرا بھی آنکھ جھپکی تو وہ آپ کی پلیٹ
پرہاتھ صاف کر جائے گا۔ دسترخوان کی یہ خوبی ہےکہ اس پر بیٹھتے ہی اعتماد کی فضا
بحال ہو جاتی ہے اور آپ کو اپنا شریک طعام حد درجہ شریف دکھائی دینے لگتا ہے۔
دوسری طرف کسی بھی بوفے ضیافت کا تصوّرکیجیئےتوآپ کو نفسا نفسی اور چھینا چھپٹی
کی فضا کا احساس ہوگا اور ڈارون کا جہد للبقا کا نظریہ با لکل سچا اور برحق نظر
آئےگا۔
دسترخوان کی ایک اور خوبی اس کی خود
کفایت ہے۔ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ کہ آپ کی جملہ
ضروریات کو طلب پورا کردیا گیا۔چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ سامنے دسترخوان پر ضرورت
کی چیزموجود ہے حتیٰ کہ اچار، چٹنی اور پانی کے علاوہ خلال تک مہیاکردیے گئے ہیں۔
دسترخوان پر بیٹھنےکے بعد اگر آپ کسی کو مدد کے لیے بلانے پر مجبور ہوں تو اس کا
مطلب یہ ہے کہ یا تو میزبان نے حق میزبانی ادا نہیں کیا یا مہمان نے اپنے منصب کو
نہیں پہچایا۔
دسترخوان کی خوبی یہ ہے کہ وہ زمین کے
سینے سے چمٹا رہتا ہے کہ وہ براہ راست زمین سے اس کی پراسرارقوت کشید کر سکے ۔ جب
آپ دسترخوان پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہیں تو اس کی غذائیت ہزار گنا بڑھ جاتی ہےجب
کہ میز کرسی پر یاچل پھر کر کھانا کھائیں تو صاف محسوس ہوتا ہےکہ اس کھانے میں وہ
برقی رو موجود نہیں جو زمین کی شریانوں سے دسترخوان کی قوسوں اور پھر وہاں سے
انسان کی رگوں میں بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچی ہے۔
دسترخوان آپ کو زمین کے لمس ہی سے
آشنا نہیں کر تا بلکہ اُنگلیوں کے لمس سے بھی متعارف کرواتا ہے۔ چھری کانٹے یا
چمچے سے کھنا کھانے میں وہ لطف کہاں جو ہاتھ سے ہاتھ سے کھانے میں ہے۔ اس میں دو
ہرا لطف ہے؛ ایک تو اس چیز کا لطف جو کھائی جارہی ہے، دوسرے اُنگلیوں کا لمس۔
دسترخوان ہی پر آپ کو پہلی بار اس
بات کا احساس ہوتا ہےکہ ہر کھانے والے کی زمان ،تالودانت اور ہونٹ کھانے کے دوران
مل جل کر ایک ایسی مخصوص آواز نکالتے ہیںجونہ صرف دوسری آوازوں سے مختلف ہو تی
ہے بلکہ جس میں کھا نے والے کی ساری شخصیت سمائی ہوتی ہے۔ کسی شخص کے اصل کردار سے
آشنا ہو نا ہو تو کھانے کے دوران اس کے منہ سر برآمد ہو نے والی آوازوں پر کان
دھریں کیونکہ ہر شخص کے اندر کی ساری شرافت یا خباثت اس کے کھانےکی آواز ہی میں
مضمر ہو تی ہے۔
سچی با ت تو یہ ہے کہ دسترخوان پر
پوری دلجمعی سے بیٹھ کر کھا نے اور بو فے ضیافت میں انتہائی سراسیمگی کے عالم میں
کھانا زہر مار کرنے میں وہی فرق ہے جو محبت اور ہوس میں ہے ،خوشبوں اور بدبو میں
ہے ،صبح کی چہل قدمی اور سوگز کی دوڑ میں ہے۔
0 Comments