Jalte Paron se Udan by Sajid Rasheed| جلتے پروں سے اُڑان-ساجد رشید

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Jalte Paron se Udan by Sajid Rasheed| جلتے پروں سے اُڑان-ساجد رشید

 

جلتے پروں سے اُڑان-ساجد رشید

Jalte Paron se Udan by Sajid Rasheed


            ریشم جیسے ملا ئم اور دھنک جیسے رنگین پروں سے سرنکا ل کر پرندے نے جب اپنے با زوؤں کو پھٹپھٹا یا تو ان پر ٹھہرے اوس کے ننھے قطرے مشرق کی بھو ری پہا ڑیوں سے جھا نکتے سو رج سے دمک اُٹھے ،جیسے پگھلے سو نے کا فوارہ پھوٹ پڑا ہو ۔ اس نے اپنی سرخ چونچ کھول کر فروخت بخش ہوا سینے میں بھری اور بڑی تا زگی محسوس کی۔ پھر سر جھٹک کر آس پا س دیکھا ۔ سب کچھ وہی تھا اور کتنا دلکش !

سورج کی نا نجی کر نوں سے تمتما تی بھو ری پہا ڑیا ں ، پہا ڑیوں کے پیروں کو دھوتی گہرے نیلے پا نیوں والی ندی، دوسری جا نب ندی میں گرتا دودھ جیساجھرنا ، کنا رے پر بکھرا مخمل سا سبزہ اور ان پر جھلملا تی اوس کی بو ندیں ،خود رو پو دوں پر منڈلا تی خوش رنگ تتلیا ں ،چھو ٹے چھوٹے پتنگے ،دائیں طرف تا زہ سبزپتوں سے ڈھکا گھنا جنگل ،پیڑوں کی لچکدار مضبوط شاخوں پر پھدکتی چڑیا ں اور ان کی چہکا ر ، سر مئی نم مٹی پر رینگتی چیونٹیاں ،معصوم آنکھوں والے ہر نوں کا جھنڈ ..... سب کچھ وہی تھا اور کتنا دلکش !

چڑیوں کی چہکا ر ،جھرنے کی جھر جھر ،ہوا کے بہا ؤ پر بہتی ندی کی کلکلا ہٹ ،ساکھے پتوں کی کھڑ کھڑا ہٹ ،ندی کے کنارے صبح کی پہلی دھوپ سینکتےمینڈکوں کی ٹر ٹرا ہٹ ،پیڑوں کے تنوں پر چڑھتی اُتر تی گلہریوں کی  چِکچِکا ہٹ ، سفید جھینگروں کی سیٹیا ں اور ہم آغوش ہو تی لچکیلی شاخوں کی سر سرا ہٹ ۔ ان ا ٓ وازوں کی نغمگی سے سارا عالم گو نج رہا تھا ....سب کچھ وہی تھا اور کتنا دلکش !

پرندے نے سینہ پھلا کر آ سما ن کو دیکھا : بے داغ آ سما ن آ ج بھی اتنا ہی نیلا اور چمکدار تھا جتنا کل تھا ۔ اس نے تنکوں سے بنے اپنے خوب صورت گھونسلے پر الوداعی نظر ڈالی اور دانے دُنکے کی تلا ش میں پر پھڑ پھڑا تا اُڑگیا ۔ اُڑا اور اُڑتا گیا : اوپر ....اوپر ....بہت اوپر....۔

ٹھیک پرندے کے سر پر آ کر سو رج نے اسے معمول کے مطابق ایک سبزہ زار میں اُتر نے پر مجبور کر دیا ۔ دور تک سبزہ تھا اور اس قدر دانے بکھرے پڑے تھےکہ پرندے کو ہمیشہ کی طرح آ ج بھی سو چنا پڑا ..... کہا ں سے شروع کیاجا ئے؟

دانا چگتے چگتے وہ سیر ہوگیا ۔ اب اس نے دیکھا کہ اس کا سا یہ قدموں تلے نہیں ہے بلکہ کچھ لمبا ہو گیا ہے۔ اس نے مٹی میں چو نچ رگڑ کر قریب کی ندی سے ٹھنڈا پا نی پیا اور پھر ایک با ر ہوا کو چیر تا فضا میں اُڑتا چلا گیا ۔دانوں سے بھا ری بیٹ  کو ہلکا کر نے کے لیے یہ اس کا معمول تھا ۔ اسے ہر اُڑا ن پر یوں محسوس ہو تا جیسے وہ بس ابھی چمکتے نیلے آسما ن کو چوم لے گا ۔ آ سما ن کو چھونے کا فیصلہ ہمیشہ کی طرح کل پر ٹا لا اور نیچے اُتر نے لگا ۔

             پرندے نے جب سر کوٹم کر کے بیچے پھیلی ہوئی دنیا کو دیکھنا چاہا تو اچانک اس کی پرواز تھم گئی۔ اس کا ننھا سا دل دھک سے رہ گیا۔ نیچے سارے میں سیاہی مائل دھند پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی دھند کہ پیڑ پودے، ندی نالے، پہاڑ ، جھرنے اور میدان جانے کہاں کھو گئے تھے کیا یہ سویرے کی دھند ہے؟ لیکن سویرا ابھی کیسے چلا آیا ؟ اور پھر سویرے کی دھند تو بڑی خوش گوار ہوتی ہے۔ وہ ایسی کثیف اور مٹ میلی تو نہیں ہوتی اور پھر اس میں خنکی بھی تو ہوتی ہے تو پھر یہ کیا ہے ؟ دھواں اس کی آنکھوں میں جلن پیدا کرنے لگا تھا۔ پروں پر اپنے چھوٹے سے جسم کا توازن برقرار رکھتے ہوئے جب وہ دھویں کے کثیف بادل میں اترا تو اس کے سینے میں چنگاریاں اُتر گئیں ۔ پھیپھڑوں میں دھواں پتھر ہو گیا اور حلق میں چیونٹیاں کاٹنے لگیں۔ سینے میں اُمنڈ تے دھویں کی اذیت اور اکھڑتی سانس سے گھبرا کر اس نے بے اختیار چونچ کھول دی۔ مگر تکلیف سے نجات تو کیا ملتی ، سینے کی جلن اور بڑھ گئی۔ بالآخر وہ دھویں کی کثیف چادر کو چیر کر نیچے کھلے میں چلا آیا، یہاں گھٹن کچھ کم تھی۔

پرندہ تھک کر چور ہو چکا تھا۔ سینے میں درد ریت کے ذرّے کی طرح چبھ رہا تھا۔ باز وایسے شل ہو رہے تھے جیسے انھیں جاڑ امار گیا ہو۔ وہ اب کسی پیڑ کی شاخ پر بیٹھ کرسستانا چاہتا تھا۔ اس نے جھکن سے بوجھل آنکھوں سے نیچے دیکھا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ اس کے وجود میں ننھا سا دل جیسے اپنی دھڑکن بھول گیا۔ اسے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔ اس نے بازوؤں کو جلدی جلدی حرکت دی اور کچھ اور نیچے اُتر آیا۔ مگر منظر نہیں بدلا، کچھ اور واضح ہو گیا ۔ " یہ سب کیا ہے؟“ اس نے سوچا اور سوچ کر تڑپ اٹھا۔ آنکھوں نے جو کچھ بھی دیکھا، وہ پرندے کے لیے حیرت انگیز تھا۔ سورج کے ڈھیر ہونے تک سارا عالم کیسے بدل گیا ؟ کہاں ہیں وہ پیڑ، پودے، سبز و زار؟ کہاں ہیں وہ ندیاں، نالے، جھرنے؟ کہاں ہیں وہ غار، ٹیلے، پہاڑ ؟ کہاں ہیں وہ ہرن ، وہ چیونٹیاں، وہ مینڈک ؟ آخر یہ سب کہاں گئے؟

جنگلوں، پہاڑوں اور ندیوں کی جگہ اب آسمان سے سر ٹکراتی ، سیسہ پلائی عمارتیں کھڑی تھیں۔ سیکڑوں ایکڑ میں پھیلی اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں ۔ بڑے بڑے راڈار تھے۔ دیو پیکر ایٹمی تجربہ گاہیں تھیں۔ سینہ تانے ٹی وی ٹاور کھڑے تھے۔ بڑی بڑی دور بینیں تھیں۔ برقی تاروں کا ایک جال تھا اور ایک کنارے پر ترتیب سے بنی ایٹمی بجلیاں تھیں جن کی کشادہ چمنیاں دھواں اور زہر اگل رہی تھیں۔اسلحہ ساز فیکٹریوں اور ایٹمی بھٹیوں سے گاڑھا کالا دھواں ہاتھیوں کی طرح جھومتا ہوا نکلتا اور فضا میں چادر کی طرح تن جاتا ۔ کل کا ایور شفاف آسمان اب یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے اس پر کالی کالی گرد جم گئی ہو۔ آسمان پر رینگتی اس سیاہی سے خوفزدہ ہو کر پرندہ اسنے گھونسلے میں اُترنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ سورج بجھنے کے بعد اپنے گھونسلے کو لوٹا ہو۔ یہ پہلا موقع تھا کہ وہ اندھیرے میں گھِر کر رہ گیا تھا۔

تھکن سے ٹوٹتے ہوئے پنکھوں سے پرندہ کچھ اور نیچے آیا تو فضا میں دوڑتے مواصلاتی پیغامات اس کے پروں سے اُلجھ اُلجھ کر محسوس ہونے لگا تھا۔ اس نے پھولتی سانسوں کے درمیان سر کو خم کر کے اندھیرے میں ڈوبتے لوہے، سیمنٹ اور کنکریٹ کے پہاڑوں پرواز میں رکاوٹیں پیدا کرنے لگے تھکن اس کے بازوؤں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی اور کو دیکھا۔ کوئی پیڑ ، کوئی شاخ کوئی سبز پتا؟ کہیں کچھ بھی نہیں اُف، یہ میں کس جہان میں آپھنسا! کیا میری پرواز اتنی اونچی تھی کہ میں اپنی حدود سے باہر نکل آیا؟ مجھے لوٹنا ہوگا۔ مگر بازوؤں سے اُٹھتی ٹیسں اس کے ارادے پر بجلی بن کر گری۔

اب تو بس چند ہی لمحوں کی پرواز کی سکت ہے مجھ میں ، اس کے بعد تو مجھے کہیں اُترنا ہی ہوگا۔

مگر کہاں ؟

اس نے نیچے دیکھا۔ ہر طرف وہی بدلا ہوا منظر ۔

ٹی وی ٹاور تھا جو غیر مرئی مناظر کو منتشر کر رہا تھا ... یہاں بھی نہیں !

بڑے بڑے نیون سائن بورڈ ننگے ہوئے تھے ...یہاں بھی نہیں !

سیمنٹ کنکریٹ کے اسکائی اسکر پر منہ چڑا رہے تھے ... یہاں بھی نہیں !

اسلحہ ساز فیکٹریوں کی چمنیاں دھواں اُگل رہی تھیں ... یہاں بھی نہیں !

کائنات کے سارے اسرار سے واقف دیو پیکر دور بینیں تھیں ... یہاں بھی نہیں !

آگ اور زہر اگلتی بڑی بڑی ایٹمی بھٹیاں تھیں ... نہیں ، یہاں بھی نہیں !

تب کہاں ؟ سوچ کر وہ لرز گیا۔

کیا میں واپس لوٹ سکوں گا، ان ندیوں، پہاڑوں اور جنگلوں کو جہاں سے میں اُڑا تھا؟ کیا اب میں اپنے نرم نرم گھونسلے میں اتر سکوں گا ؟

کیا اب کبھی نیلے آسمان کی وسعت میں تیرتے ہوئے میں نظروں کی آخری سرحد تک پھیلے گھاس کے میدان کا نظارہ کر سکوں گا؟

میری پیاس بجھانے کو کیا وہ ٹھنڈا پانی مل سکے گا؟

گھنے درختوں کی چھایا میں ستاتے کسی ہرن کی پیٹھ پر بیٹھ کر کیا میں اس کی گردن کو گد گدا سکوں گا؟

کیا تم مٹی میں اپنے پنجوں کے نشان دیکھ سکوں گا؟

سوالات نے خوف میں ڈھل کر پرندے کو بد حواس کر دیا۔ کسی پیڑ کی زندہ شاخ کو پانے کے لیے اس نے زمانے سے ایک غوطہ لگایا اور ایک دیو پیکر عمارت کی کھڑکی کے مضبوط شیشے سے جا ٹکرایا۔ پھر تو وہ کسی ڈوبتے جہاز کی طرح گاڑھے کالے دھویں میں گھری عمارتوں کی نہ جانے کتنی کھڑکیوں سے سر ٹکراتا پھر امگر اسے واپسی کا راستہ نہ ملا۔ اب اس کے حواس جواب دے چکے تھے۔ وہ تھکن اور خوف سے کانپتے جسم کو سنبھال نہ سکا اور ایک ایٹمی بھٹی کے عین منہ پر اپنا توازن کھو بیٹھا۔ زہر نے پھیپھڑوں میں کانٹے ہوئے اور شعلوں نے اس کے پروں کو چاٹ لیا اور گرد آلود تار یک آسمان پر دور تک ایک روشن لکیر پھیلتی چلی گئی۔ جب آگ پروں کو جلاتی اس کے دل تک پہنچی جب پرندے نے تڑپ کر نیچے اُگے لو ہے، آگ اور دھویں کے جنگل پر آخری نگاہ ڈال کر سوچا گیا یہ میری آخری پرواز ہے؟ کیا اس سفاک ٹھوس زمین میں سے کوئی بیج اپنی ننھی سبز بانہوں سے سیمنٹ کنکریٹ کے پہاڑوں کو چیر کر تناور درخت بننے کے لیے سر نہیں نکالے گا ؟"

وہ سارے ماہرین فلکیات جن کی آنکھیں بڑی بڑی دور بینوں میں گڑی رہتی ہیں اور جو کائنات میں نمودار ہونے والے ایک ایک ستارے کی خبر رکھتے ہیں، وہ عین اپنے سر پر ایک پرندے کے وجود کے خاک ہو کر فضا میں بکھرنے کے حادثے سے لاعلم ہی رہے۔  


Post a Comment

0 Comments