Doctor Zakir Hussain idara |ڈاکٹر ذاکرحسین-ادارہ

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Doctor Zakir Hussain idara |ڈاکٹر ذاکرحسین-ادارہ

 

ڈاکٹر ذاکرحسین

Doctor Zakir Hussain 


ڈاکٹر ذاکر حسین ہمارے ملک کے تیسرے صدرِ جمہوریہ ہو ئے ہیں ۔وہ ۸ ؍فروری ۱۸۹۷ ء کو حیدرآباد میں پیدا ہو ئے۔ ان کے والد فداحسین خاں حیدرآباد میں  وکالت  کِیا کر تے تھے۔

ذاکر صاحب ابھی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔چنانچہ وہ حیدرآباد سے اُتر پردیش آگئے اور اِٹاوہ کے اسلامیہ ہائی اسکول میں انھیں داخل کیا گیا۔ اسکول کی تعلیم ختم کر کے انھوں نے کچھ دنوں لکھنئوکے  ایک کالج میں پڑاھائی کی۔ پھر علی گڑھ میں سرسیّدکے جاری کیے گئے مشہور محمڈن اینگلو اور نیٹل کا لج میں داخل ہوئےجہاںوہ ایم . اے. کررہے تھے۔ ان ہی دنوں مہاتماگاندھی  کے کہنے پر مولانا محمدعلی جوؔہر،مولانا ابوالکلام آزاد،مختار احمد انصاری ،حکیم اجمل خاں اور دوسرے قومی رہنماؤں نے دہلی میں جا معہ ملّیہ اسلامیہ قائم کیا۔ بہت سے طالب علم اور اساتذہ مسلم یونیورسٹی سے الگ ہو کر جامعہ میں آگئے۔ذاکرصاحب بھی ان میں شامل تھے۔وہ اس وقت پڑھتے بھی تھے اورپڑھاتے بھی تھے۔جامعہ ملّیہ میں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ   یورپ کے ملک جرمنی چلےگئے۔

جرمنی میں ڈاٹر سیّد عابد حسین اور پروفیسر محمد مجیب سے ان کی ملاقات ہو ئی ۔تینوں کے مزاج میں بڑی یکسانیت تھی اس لیے وہ گہرے دوست بن گئے۔۱۹۲۶ ء میں یہ تینوں اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں لے کر ہندوستان واپس آئے ۔یہاں آتے ہی انھوں نے جامعہ ملّیہ کا کام سنبھال لیا۔

ذاکر صاحب ۱۹۴۸ ءتک جامعہ میں خدمت کرتے رہے۔پھراس وقت کے وزیر تعلیم مولانا آزاد نے ان سے علی گڑھ یو نیوسٹی کی ذمّے داری قبول کرنے کے لیے کہا ۔چنانچہ ذاکر صاحب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہو ئے۔اپنی صلاحیتوں کو کام میں لا کر ذاکر صاحب نے مسلمانوں کے اس تعلیمی ادارےکو خوب ترقی دی ۔یہاں کے عملے میں کام کرنے کا حو صلہ اور ولو لہ پیدا کیا۔ نئے نئے شعبے جاری کیے اور کئی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ ذاکر صاحب کی وجہ سے یونیورسٹی میں نئی جان پڑ گئی۔

ذاکر صاحب کی صحت ایک زمانے سے خراب تھی۔ علی گڑھ میں کاموں کا بوجھ بڑھا تو ان کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ آخر۱۹۵۲ء میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا اور اپنے گھر جامعہ نگر دہلی چلے آئے۔ کچھ عرصے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کے اصرار پر انھیں بہار کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اس ذمے داری کو بھی ذاکر صاحب نے بڑی خوبی سے نبھایا۔ ۱۹۶۲ء میں انھیں نائب صدر جمہور یہ بنا دیا گیا۔ اپنی خدمات کی وجہ سے وہ اتنے ہر دلعزیز ہوئے کہ ملک ۔ سب سےبڑے عہدے صدر جمہوریہ کے لیے ان کا نام پیش کیاگیااور ۱۲ رمئی ۱۹۶۷ء کو وہ اس عہدے پر فائز ہو۔اصل بات یہ ہے کہ جو شخص خلوص ،محبت لگن اور دیانت داری کے ساتھ عوام کی خدمت کرتا ہے ،اسے زندگی میں ضروٗرکا میابی حاصل ہو تی ہے۔

مصروفیات کی وجہ سے ذاکر صاحب اپنے گھر کی طرف کم  ہی توجہ دے پاتے مگر ان کے گھر کی ہر چیز سے ان کا اعلیٰ ذوق جھلکتا تھا۔ ذاکر صاحب کو باغبانی کا بڑا شوق  تھا ۔انھوں نےمختلف قسم کے پیڑ پودے اپنے باغ میں لگائے تھے۔ خاص طور پر طرح طرح کے گلابوں کی کیاریوں سے ان کا باغ سجا رہتا تھا۔ ان کا گھر دنیا بھر کی مشہور تصویروں سے بھی بھرا تھا۔ وہ ان تصویروں کی نقلیں بچوں اور دوستوں میں تقسیم کرتے تھے۔ پتھر جمع کرنا ذاکر صاحب کا ایک اور مشغلہ تھا۔ انھوں نے عجیب عجیب قسم کے پتھر جمع کیے تھے کہ دیکھنے والا دنگ رہ جائے ۔ انھیں طرح طرح کے چرند و پرند بھی پالنے کا شوق تھا۔ ایک طرف پہاڑی طوطا ٹیں ٹیں کرتا، کہیں خوبصورت بلی ناز و انداز دکھاتی۔ مرغیاں سب ایک رنگ اور ایک نسل کی ؛ سفید سفید۔ ایسی ہی خوبصورت بکریاں !

ایک دن بکری تسلے میں دانہ کھا رہی تھی۔ کچھ گھاس اور پتیاں سامنے پڑی تھیں۔ ذاکر صاحب نے اپنی بیگم صاحبہ سے کہا، آپ بکری کو کس طرح دانہ دیتی ہیں ، گھاس تو زمین پر پڑی ہے۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔ ایک اچھی سی چٹائی بچھا کر اسے بٹھائے۔ لوٹے میں پانی لاکر اس کا منہ دھوئے۔ تو لیےسے پو نچھیے ،پھر تسلےمیں کھانا سجا کر اس کے سامنے رکھیے۔“

بیگم صاحبہ اور وہاں موجود دوسرے گھر والے ہنسنے لگے، مگر آپ اس بات پر غور کریں تو اس میں گہرائی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر کام چھوٹا ہو یا بڑا، اچھی طرح اور سلیقے سے انجام دینا چاہیے۔

اکثر بڑے آدمی سمجھتے ہیں کہ اپنے سے نیچے درجے کے لوگوں اور غریبوں سے ملنے اور بات کرنے میں ہماری شان گھٹ جائے گی۔ مگر ذاکر صاحب کا انداز اور ہی تھا۔ جب وہ علی گڑھ سے دہلی آتے تو ان کے یہاں کی ایک غریب بڑھیا ان کے آنے کی خبر سن کر تڑپ جاتی ۔ " ذاکر بھیا آئے ہیں، ذاکر بھیا آئے ہیں" کہہ کر اٹھتی اور لاٹھی ٹیکتی ان سے ملنے پہنچ جاتی۔ ذاکر صاحب بھی اس سے بڑی اپنائیت سے ملتے۔ ایک دفعہ وہ بیمار پڑگئی اور ذاکر صاحب سے ملنے نہ آئی تو خود ذاکر صاحب اس کی مزاج پرسی کو اس کی کوٹھری میں آئے۔ اس سے خوب باتیں کیں۔

گھر والے اور ان کے دوسرے رشتے دار ذاکر صاحب کو میاں کہا کرتے تھے۔ ذاکر صاحب کو بچوں سے بڑی محبت تھی۔ ان کی شرارتوں اور شور و غل سے بھی وہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنی انتہائی مصروف زندگی میں بھی بچوں کے ساتھ رہنے کا وقت نکال لیتے۔ ان کے نزدیک ملک اور قوم کی سب سے بڑی اور قدر کے قابل دولت بچے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بچوں کو اچھی تعلیم دیجائے اور مناسب طور پر ان کی پرورش کی جائے۔ بچّے ہی وہ بنیاد ہیں جس پر قومی تعلیم کی نئی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے بچوں کی تعلیم اور ان کی ضروٗرتوں کو سمجھا اور ان کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ جب مکتبہ جامعہ قائم ہوا تو یہاں سب سے زیادہ بچوں کے لیے کتابیں تیار کرنے کا کام کیا گیا۔ ذاکر صاحب نے اپنی عمر کا بڑا حصہ بچوں کو پڑھانے میں گزار دیا۔ انھوں نے تدریس کے پیشے کو اس لیے چنا کہ انھیں اس کام کا شوق تھا۔

ذاکر صاحب نے جامعہ کے ہر کام میں بچوں کو آگے رکھا اور ان سے بڑے بڑے کام کروائے ۔ ۱۹۳۵ء میں جب دہلی میں جامعہ نگر کی عمارتیں بنا شروع ہوئیں تو ان کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے اس بچے کو عزت دی جو عمر میں سب سے چھوٹا تھا۔ ذاکر صاحب کا برتاؤ کچھ ایسا تھا کہ بچے اپنے آپ پر بھروسہ ن کا خیال تھا کہ بچے کی شخصیت اُبھر کر سامنے آنی چاہیے، اس کے جو ہر کھلنے چاہئیں۔ اسے اپنے کام میں مزہ آنا چاہیے۔ بچوں کے لیے انھوں نے بہت سی مزے دار کہانیاں بھی لکھیں۔

بچوں سے پیار کرنے والے، بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مسلسل کوشش کرنے والے اور ملک کے عوام کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کرنے والے اس مخلص رہنما نے ۳ رمئی ۱۹۶۹ء میں وفات پائی۔ جامعہ ملیہ کے احاطے میں ان کا مقبرہ موجود ہے۔


Post a Comment

0 Comments