گھڑی- اصف فر خی
Ghadi
by Asif Farrukhi
ایک وقت ایسا تھا کہ
انسان صرف شکار اور پناہ گاہوں کی تلاش میں رہا کرتا تھا۔ اتنا شکار کرتا کہ پیٹ
بھر جائے اور ایسی جگہ رہتا جہاں حفاظت سے رات گزاری جاسکے۔ لیکن جب وہ ایک مقام
پر بس گیا اور اس نے کام کاج شروع کر دیا تو وقت کی پیمائش ضروٗری ہوگئی۔ وقت، رات
اور دن میں تو تقسیم تھا ہی، اب دن کو پہروں اور گھنٹوں میں تقسیم کرنے کی ضروٗرت
پڑ گئی۔
وقت کا سب سے بڑا پیمانہ
تو سوٗرج تھا۔ دن ڈھلنے اور وقت گزرنے کا حساب اس بات سے رکھا جاتا تھا کہ سورج
کہاں پر ہے۔ وقت کو ناپنے کے لیے پہلی گھڑی بھی سورج کے لحاظ سے بنائی گئی۔ یہ دھوٗپ
گھڑی، گھنٹوں کا حساب رکھتی تھی اور سائے کے لحاظ سے وقت بتاتی تھی۔ گھٹتے بڑھتے
سائے کےحساب سے وقت بتانے والی دھوٗپ گھڑی کے ساتھ مشکل یہ تھی کہ رات کے وقت یہ
بے کار ہو جاتی تھی ۔ جن دنوں بادلوں کی وجہ سے سورج نہ دِیکھائی دیتا تو دھوٗپ
گھڑی بھی رک جاتی اس لیے لوگوں نے وقت کی پیمائش کے دوسرے طریقے ڈھونڈ نا شروع کر
دیے۔
قدیم یونان اور روم میں
آبی گھڑی بہت مقبول تھی۔ یہ گھڑی کیا تھی ، ایک برتن تھا۔ پانی کی ناند بھر کر اس
میں ایک ایسا کٹورا رکھ دیتے جس کی پیندی میں ایک بہت چھوٹا سوراخ ہوتا تھا۔ پانی
اس سوراخ سے آہستہ آہستہ کٹورے میں چڑھتا رہتا۔ جب کٹورا بھر کر ڈوب جاتا تو لوگ
سمجھ لیتے کہ ایک گھنٹا پورا ہو گیا ہے۔
اس کے بعد شمع گھڑی کا
رواج ہوا۔ یہ موم بتّی تھی جس پر مخصوص فاصلے پر نشانات لگے ہوتے تھے۔ ایک نشان سے
دوسرے نشان تک شمع کے پگھلنے کا مطلب تھا کہ ایک گھنٹا گزر گیا یعنی موم بتّی کا
جلنا اور پگھلنا وقت کے گزرنے کو ظاہر کرتا تھا۔
اس سے زیادہ ستا اور قابلِ اعتماد ذریعہ ریت گھڑی تھی۔
یہ گھڑی شیشے کی ایک نلکی تھی جو درمیان سے اتنی پتلی ہوتی کہ دو حصوں میں بٹی ہوئی
نظر آتی۔ اوپر کے حصّے میں ریت بھری ہوتی تھی جو نیچے گرتی رہتی۔ اوپری حصّے کے
بالکل خالی ہو کر نچلے حصّے کے بھر جانے میں پورا گھٹا لگتا تھا۔ جب گھٹنا پورا ہو
جاتا، اوپر کی تمام ریت نیچےپہنچ جاتی تو ریت گھڑی کو اُلٹا کر لیا جاتا اور ریت
کا گرنا دوبارہ شروع ہو جاتا۔ ریت گھڑی کا رواج اس وقت کم ہوا جب کل پرزوں کی بنی
ہوئی گھڑیاں عام ہو گئیں۔
ایسی گھڑیوں کے عام ہونے
میں بہت وقت لگا اور ایک عرصے تک انھیں عجو بہ سمجھا جاتا رہا۔ خلیٖفہ ہارون رشید
نے فرانس کے بادشاہ شارلمین کو تحفے میں بہت خوب صورت گھڑی بھیجی تو اس کا سارا در
بار گھڑی کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔
یورپ میں کل پرزوں کی گھڑی
بارہویں صدی میں نمودار ہوئی ۔ لوہاروں کی بنائی ہوئی یہ گھڑی کچھ ایسی ٹھیک نہیں
تھی مگر اس سے تھوڑا بہت کام لیا جانے لگا ۔ ۱۳۰۶ ء میں اٹلی کے شہر مِلان
میں پہلی مرتبہ گھنٹے کی ٹَن ٹَن سنائی دی تو اسے بڑا اہم واقعہ سمجھا گیا۔ اس کا
مطلب یہ تھا کہ اب محض سن کر لوگ یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا وقت ہوا ہے۔
جلد ہی عوام کی سہولت کے
لیے شہروں کے اہم مقامات پر بڑے بڑے گھنٹا گھر تعمیر کیے گئے۔ بعض شہروں میں جو
گھنٹا گھر بنائے گئے وہ فن تعمیر اور ماہرانہ کا ریگری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ ہر
گھنٹے پر سپاہیوں کی قطار یا تاریخی ہستیوں کی شبیٖہ نکل کر بتائی کہ گھٹا پورا ہو
گیا ہے۔ لوگ انھیں دیکھتے اور وقت کا اندازہ لگا لیتے۔ لوگ اب بھی دور دور سے آکر
ان گھنٹا گھروں کو دیکھتے ہیں۔ یہ معلوم کرنے کے لیے نہیں کہ اب کیا وقت ہوا ہے
بلکہ ایک گزرے ہوئے زمانے کے آثار کے طور پر۔
لوہاروں نے ابتدا میں جو
گھڑیاں بنائی تھیں وہ بڑی اور بھاری تھیں اور پہیوں کے گرد گھومنے والے وزن سے چلتی
تھیں۔ ان کو بہتر بنانے کے لیے کام ہوتا رہا۔ بھاری وزن کے لیے اسپرنگ استعمال ہوا
تو گھڑی کا چھوٹاکرنا ممکن ہو گیا۔ پنڈ دلم لگائے گئے تو گھڑی کی رفتار بہتر ہوگئی
اور منٹ بتانے والی چھوٹی سوئی کے اضافے سے اب گھڑیاں گھنٹوں کا حساب رکھنے کی
بجائے منٹ منٹ کا حساب رکھنے لگیں۔
گھنٹوں کی بجائے چھوٹی
گھڑیاں بنے لگیں اور ان کا سنبھالنا آسان ہو گیا تو ان کا استعمال بھی بڑھ گیا۔ اب
ہر شخص چاہتا تھا کہ اس کے گھر کی دیوار پر ایک گھڑی ضروٗر لٹک رہی ہو۔ اس طرح گھڑی
سازی اہم پیشہ بن گیا۔
پہلی باقاعدہ گھڑی جرمنی
کے ایک قفل ساز نے ۱۵۰۰ء کے لگ بھگ بنائی۔ یہ گھڑی کالر کی بیضوی شکل کی تھی
اور گلے میں ہار کی طرح پہنی جاتی تھی یا کالر کے گرد الٹکائی جاتی تھی۔ اس گھڑی
نے جلد ہی ایک زیور کی صورت اختیار کر لی۔ مشہور و معروف سُنار اور دست کار ان گھڑیوں
کو طرح طرح کے نمونوں میں بناتے اور سونے چاندی کے کام پر جواہر جڑتے۔ یہ گھڑی کیا
تھی فن پارہ تھی اور ایسی گھڑی کا مالک ہونا بڑی بات تھی۔ جن لوگوں کی طبیعت میں دِکھاوا
ہوتا، وہ ایک ہی وقت میں کئی گھڑیاں پہنتے۔ گھڑیاں الگ الگ شکلوں کی ہوتی ہوں گی
مگر ان سب میں وقت ایک ہی ہوتا۔
ایک گھڑی بنانے کے لیے ایک
ماہر اور ہنرمند کاریگر کو بہت وقت درکار ہوتا تھا صنعتی ترقّی کی بدولت ممکن ہوا
کہ اتنی قیمت کی گھڑیاں بننے لگیں کہ ایک عام آدمی کی دستّرس میں ہوں۔ گھڑی زیور کی
بجائے ضروٗرت کی چیز بن گئی مگر پھر بھی گھڑی بہت قیمتی ملکیت سمجھی جاتی تھی۔
سونے کی زنجیر سے لٹکی ہوئی، ڈبیا کی طرح کھلنے والی اور چابی سے چلنے والی جیبی
گھڑیاں اب سے تھوڑے عرصے پہلے تک اعلیٰ لباس کا حصہ سمجھی جاتی تھیں۔
اب گھڑیاں جیبوں سے نکل
کر کلائی پر آگئی ہیں یعنی اب وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ وقت کیا ہاتھ آیا، طرح طرح
کی گھڑیاں سامنے آگئیں۔ بغیر چابی کے چلنے والی ، اندھیرے میں چپکنے والی، پانی سے
خراب نہ ہونے والی اور چوٹ سہار جانے والی گھڑیاں اب عام ہیں۔ آج کی گھڑیاں دیکھنے
میں سبک بھی نظر آتی ہیں اور وقت کی پیمائش
میں اتنی حسّاس ہیں کہ سیکنڈ کے حصّے کا بھی حساب رکھتی ہیں۔ دھوٗپ گھڑی سے کلائی
گھڑی تک آنے میں بہت وقت لگا ہے۔
0 Comments