Jadugaron Ka Election by Krishan Chander|جادو گروں کا الیکشن -کرشن چندر

Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

Jadugaron Ka Election by Krishan Chander|جادو گروں کا الیکشن -کرشن چندر

 

جادو گروں کا الیکشن -کرشن چندر

Jadugaron Ka Election by Krishan Chander


سامنے بہت سے لوگ رنگ برنگی جھنڈیاں ہلاتے ہوئے جارہے تھے۔ یوسف، موہن اور شہزادی بھی ان لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ مجمع زور زور سے نعرے لگا رہا تھا،الٰہ دین کو وٹ دو... الٰہ دین زندہ باد ۔‘‘

مجمع نعرے لگاتا، جھنڈیاں ہلاتا شہر کے ایک بڑے چوک میں پہنچا۔ یوسف نے دیکھا لوگ بھو کے نظر آرہے ہیں۔ اُن کے کپڑے بوسیدہ اور تار تار ہیں پھر بھی وہ خوش ہیں۔ یوسف نے پوچھا،’’ بھئی ! کیا ماجرا ہے؟“

ایک آدمی نے حیرت سے کہا، ”ساری دنیا کو معلوم ہے اور تمھیں معلوم نہیں؟ آج جادو گروں کا الیکشن ہے۔ وہ دیکھو، سامنے الٰہ دین اپنا چراغ ہاتھ میں لیے الیکشن لڑ رہا ہے۔‘‘ یوسف نے دیکھا، واقعی بڑے بڑے رنگا رنگ جھنڈوں کے درمیان الہٰ دین کھڑا تقریر کر رہا ہے۔’’ بھائیو اور بہنو! میں بھی تمھاری طرح ایک معمولی آدمی ہوں۔ میں ایک درزی کا بیٹا ہوں۔ میں تمھارے دُکھ درد پہچانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے، تم لوگ بھوکے ہو، تمھارے جسم پر کپڑے نہیں سامنے بہت سے لوگ رنگ برنگی جھنڈیاں ہلاتے ہوئے جارہے تھے۔ یوسف، موہن اور شہزادی بھی ان لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ مجمع زور زور سے نعرے لگا رہا تھا، الہ دین کو وٹ دو... الہ دین زندہ باد

مجمع نعرے لگاتا، جھنڈیاں ہلاتا شہر کے ایک بڑے

چوک میں پہنچا۔ یوسف نے دیکھا لوگ بھو کے نظر آرہے ہیں۔ اُن کے کپڑے بوسیدہ اور تار تار ہیں پھر بھی وہ خوش ہیں۔ یوسف نے پوچھا بھئی ! کیا ماجرا ہے؟“

ایک آدمی نے حیرت سے کہا، ”ساری دنیا کو معلوم ہے اور تمھیں معلوم نہیں؟ آج جادو گروں کا الیکشن ہے۔ وہ دیکھو، سامنے الہ دین اپنا چراغ ہاتھ میں لیے الیکشن لڑ رہا ہے۔ یوسف نے دیکھا، واقعی بڑے بڑے رنگا رنگ جھنڈوں کے درمیان اللہ دین کھڑا تقریر کر رہا ہے۔ بھائیو اور بہنو! میں بھی تمھاری طرح ایک معمولی آدمی ہوں۔ میں ایک درزی کا بیٹا ہوں۔ میں تمھارے دُکھ درد پہچانتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے، تم لوگ بھوکے ہو، تمھارے جسم پر کپڑے نہیں ہیں، بچوں کے لیے تعلیم نہیں ہے، پچھلی حکومت نے تمھارے لیے کچھ نہیں کیا مگر وہ سونے کے دیو کی حکومت تھی۔ میں اپنے اس جادو کے چراغ کی مدد سے تمھارے لیے ہر طرح کے عیش کا سامان مہیا کروں گا۔ دیکھو، میرے جادو کے چراغ کے کرشمے!“ یہ کہہ کر الٰہ دین نے چراغ کو اپنی ہتھیلی سے رگڑا ۔ فوراً ایک جن ہوا میں اُڑتا ہوا نظر آیا اور کہنے لگا، الٰہ دین کیا حکم ہے؟‘‘

الٰہ دین نے کہا ،’’میں شہر کے بے گھر لوگوں کے لیے عالی شان محل بنانا چاہتا ہوں ۔ ذرا ایک محل تو لا کے دکھا دوْ‘‘

جن غائب ہو گیا ۔ دوسرے لمحے وہی جن اپنے ہاتھ پر ایک عالی شان سات منزلوں والا چمکتا ہوا محل لیے حاضر ہوا۔ لوگوں کی نگا ہیں اس خوبصورت محل کی طرف کھینچتی چلی گئیں۔ محل کے دروازے کھلے تھے۔ کھڑکیاں کھلی تھیں محل کے اندر روشنیاں جگ مگ جگ مگ کر رہی تھیں۔ خوب صورت قالین اور صوفے بچھے تھے۔ میزوں پر طرح طرح کے پھل چنے ہوئے تھے۔ پلاؤ، متنجن، زردے، قورمے، طرح طرح کی سبزیاں ،فالودے ،فیر نیاں ، شربت ، آئس کریم گھومتی ہوئی میزوں پر رکھی ہوئی لوگوں کو نظر آرہی تھیں۔ لوگوں کی رال ٹپکنے لگی۔ لاکھوں گلوں سے آواز آئی ،’’الٰہ دین کو دوٹ دو، الٰہ دین زندہ باد۔ ایک دوٹ، ایک ملک، ایک الٰہ دین ، ایک چراغ ۔‘‘ یکا ایک الٰہ دین نے تالی بجائی۔ جن اپنے محل سمیت غائب ہو گیا ۔ الٰہ دین نے کہا، ’’پہلے مجھے ووٹ دو۔ پھر یہی محل تمھیں ملے گا۔‘‘ لوگ دھڑا دھڑ ووٹ دینے کے لیے جانے لگے۔

یکایک دوسری طرف سے آواز آئی،’’ لوگو! بے وقوف نہ بنو۔ یہ الٰہ دین ، درزی کا بیٹا تمھیں بے وقوف بنا رہا ہے۔ اصلی جادو تو میرے پاس ہے۔ جادو کی ٹوپی ! سلیمانی ٹوپی ؟“  

مجمع دوسری طرف پلٹ پڑا۔ جہاں ایک بہت بڑے بینڈ باجے کے ساتھ، ایک بہت بڑے چبوترے پر دو درجن لاؤڈ اسپیکروں کے سامنے ایک جادو گر سلیمانی ٹوپی ہاتھ میں لیے تقریر کر رہا تھا۔ یوسف، موہن اور شہزادی بھی ادھر چلے گئے ۔ وہ کہہ رہا تھا، ’’الٰہ دین ٹھگ ہے، اسے ہرگز ووٹ نہ دینا۔ الٰہ دین کا چراغ پرانا ہو چکا ہے۔ اس کا جن بھی بڈھا ہو چکا ہے۔ اتنے دنوں میں وہ تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکا، اب کیا کرے گا ؟ اب کے تم مجھے ووٹ دو کیوں کہ میرے پاس سلیمانی ٹوپی ہے۔“

موہن نے کہا، ’’اس ٹوپی میں کیا خاص بات ہے؟ مجھے تو سیدھی سادھی سفید رنگ کی ٹوپی دکھائی دیتی ہے۔“

جادوگر نے موہنکی بات سن لی۔ وہ وہیں چبوترے سے چلّا کر بولا، ”یہ کوئی معمولی ٹوپی نہیں ہے۔ اسے پہن کر آدمی یوں غائب ہو جاتا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ دیکھو دیکھو، سلیمانی ٹوپی کا کمال دیکھو۔“ یہ کہہ کر جادوگر نے سلیمانی ٹوپی

پہن لی اور مجمع کے درمیان سے غائب ہو گیا۔ اب صرف اس کی آواز آ رہی تھی۔

’’ دیکھا، یہ سلیمانی ٹوپی کا کمال ہے!" جادو گر نے سر سے ٹوپی اُتاری اور اب وہ لوگوں کو نظر آنے لگا۔’’ اس ٹوپی کو پہن کر آدمی غائب ہو سکتا ہے۔ جہاں چاہے گھوم سکتا ہے۔ وہ ساری دنیا کی سیر کر سکتا ہے۔ وہ جہاں چاہے بغیر ٹکٹ کے جاسکتا ہے اور اسے کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ اس ٹوپی کو پہن کر آدمی بڑے بڑے راز معلوم کر سکتا ہے۔ اس ٹوپی کو پہن کر آدمی وزیر بن سکتا ہے، نوکری حاصل کر سکتا تا ہے۔ یہ سلیمانی ٹوپی ہے۔ اس کے سامنے الٰہ دین کا چراغ بالکل ہیچ ہے۔ اسے رگڑنے کی ضروٗرت نہیں ۔ کسی جن کو بلانے کی ضروٗرت نہیں۔ بس اسے سر پر پہن لیجیے۔ آپ کے سب کام پورے ہو جائیں گے۔ پھر الٰہ دین کے پاس ایک ہی چراغ ہے لیکن میں نے سب کے فائدے کے لیے ہزاروں سلیمانی ٹوپیاں تیار کرائی ہیں .... آئیے، مجھے ووٹ دیجیے اور ایک سلیمانی ٹوپی لیتے جائیے۔ ایک دوٹ، ایک سلیمانی ٹوپی !“

لوگ ووٹ دینے کے لیے بھاگنے اور شور مچانے لگے ۔ "سلیمانی ٹوپی زندہ بادا الٰہ دین کا چراغ مردہ باد!‘‘

            ’’ہاہاہا‘‘  تسیرے چبوترے سے ایک زور کا قہقہہ بلند ہوا۔ سب لوگ ادھر دیکھنے لگے۔ وہاں ایک اور جادو گر سر پر سفید کاغذ کی ٹوپی رکھے، سفید کاغذ کا کوٹ پہنے، آنکھوں پر چشمہ لگائے، ہاتھ میں اخبار لیے ہنسں رہا تھا اور کہہ رہا تھا،’’ دوستو ! یہ سلیمانی ٹوپی والا بہروپیا ہے، بہر و پیا... یہ خود تو ووٹ لے کر غائب ہو جائے گا اور آپ کو کپڑے کی ٹوپیاں دے جائے گا۔چاہے آپ ان کو سر پر پہنیے، چاہے تھیلی بنا کر گھر لے جائیے۔ دوستوا یہ!یہ سلیمانی ٹوپی کس کام؟غائب ہو کر آپ کیا کریں گے؟اگر آپ کو اس جادوکی دنیا میں رہنا ہے تو سچا جادو تلاش کرنے کی کوشش کیجیے اور سچے جادوگر کو اپنا بادشاہ بنائیے۔ مجھے دیکھیے ۔ میرا جادو کسی کو غائب نہیں کرتا۔ کوئی ہوائی محل نہیں دِکھاتا۔ مَیں ابھی آپ کے سامنے وہ چیز رکھتا ہوں جس کی آپ کو ضروٗرت ہے۔ ‘‘جادوگر نے اُنگلی سے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا۔’’ کہو تم کیا چاہتے ہو؟“

اُس آدمی نے کہا، ’’مجھے اپنی زمین میں کنواں چاہیے۔“

جادو گر نے اپنے چبوترے پر پڑے کاغذ کے انبار میں سے ایک بڑا سا کاغذ نکالا اور اُس پر کچھ منتر پڑھ کر پھونکا اور اس آدمی کو دیا۔ یکا یک اُسے اپنے نجر کھیتوں کے بیچ میں ایک کنواں نظر آیا۔ کنویں پر رہٹ چلنے لگا۔ پانی فوّارے کی طرح نکل کر کھیتوں کو سیراب کرنے لگا۔ آدمی کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اُس نے دیکھا، اُس کے جھونپڑے سے اُس کی بیوی نکلی، پانی کا گھڑا لیے ہوئے۔ بیوی نے مسکرا کر خاوند کی طرف دیکھا۔ اور خاوند اُسی وقت وہ کاغذ ہاتھ میں لے کے اپنے گھر طرف بھاگا۔ وہ بھاگتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا،’’ مجھے میرا کنواں مل گیا !"

’’تمھیں کیا چاہیے؟“ جادوگر نے دوسرے آدمی سے پوچھا۔ اُس آدمی نے کہا، ”ہمارے قصبے میں کوئی اسکول نہیں ہے۔“ جادوگر نے کاغذ کا دوسرا پرزہ اُٹھایا اور اُس پر منتر پڑھ کر پھونکا اور پھر وہ پرزہ اس آدمی کے ہاتھ میں دے دیا۔ آدمی اسی وقت وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لے کر وہاں سے بھاگا۔ بھاگتے بھاگتے وہ کہہ رہا تھا،’’ ہمیں اسکول مل گیا! ہمیں اسکول مل گیا !"

پھر کیا تھا۔ مجمع جادوگر پر ٹوٹ پڑا۔ ایک بولا " مجھے جوتا چاہیے۔ جادوگر نے اسے کاغذ کا پرزہ دیا۔ دوسرا بولا ” مجھے موٹر چاہیے۔“ تیسرا بولا، " ہمیں اپنے گاؤں میں ایک ہسپتال چاہیے۔“

موہن نے یوسف سے کہا ” تمھیں کاغذ پر کچھ نظر آتا ہے؟"

یوسف نے کہا ” مجھے تو سفید کاغذ ہی نظر آتا ہے۔“

موہن نے کہا، ممکن ہے ان لوگوں کو کچھ نظر آتا ہو۔ اگر مان لیا جائے کہ اُنھیں کچھ نظر آتا ہے ، تو آخر کاغذ ہی پر نظر آتا ہے نا، اس کی حقیقت کیا ہے؟‘‘ یوسف نے اس آدمی کو بازو سے پکڑ لیا جس نے جادوگر سے جوتا مانگا تھا اور اُس سے پوچھا ،’’تمھیں جو تا مل گیا؟،’’اس آدمی نے بڑے غصّے سے کاغذ کا پرزہ یوسف کے منہ کے سامنے لا کر کہا " دیکھتے نہیں ہو۔ مل گیا ہے۔ یہ دیکھو۔“

یوسف کو سفید کاغذ ہی نظر آیا۔

یوسف نے کہا،’’ اگر یہ جوتا ہے تو اسے پہن کر دکھاؤ۔"

اس آدمی نے کاغذ کے ٹکڑے کو اپنے پیر میں پہننے کی کوشش کی۔ کاغذ بیچ سے پھٹ گیا۔ چرر کی آواز سنتے ہی جادو گر زور سے گر جا، ’’کون حقیقت پسند گھس آیا ہماری جادو کی دنیا میں۔ اسے جلدی نکالو ورنہ یہ سب کچھ تباہ کر دے گا۔ ہمارا جادو سب ختم ہو جائے گا۔“

اتنا سنتے ہی الٰہ دین چراغ والا ، سلیمانی ٹوپی والا ، جادو کے کاغذ والا اور اُن کے حمایتی یوسف، موہن اور شہزادی کے پیچھے بھاگے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ یوسف نے بڑی چالاکی سے کام لیا۔ اُس نے جلدی سے سلیمانی ٹوپیوں کے بنڈل سے تین ٹوپیاں نکالیں اور انھیں پہن کر تینوں مجمع کے بیچ سے غائب ہو گئے۔


Post a Comment

0 Comments