مظفر حنفی
سے ایک ملا قا ت
Muzaffar Hanfi Se Ek Mulaqat
ملاقاتی : اپنی
زندگی کے ابتدائی حالات سے متعلق کچھ بتائیں۔
مظفر حنفی
:میرا بچپن لڑکپن اور جوانی بھی
غربت و افلاس اور سماجی بے انصافیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرے ہیں ۔ مختصرا عرض ہے
کہ میرا پرائمری اور مڈل اسکول کا زمانہ انتہائی عسرت میں بسر ہوا۔ والد صاحب
کھنڈوہ میں پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ والدہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ
آبائی وطن ہوہ ( فتح پور ) میں رہنے پر مصر تھیں ۔ کھنڈ وہ سے دس روپے کا منی آرڈر
ہر مہینے آتا تھا جس میں ہم پانچ نفر مہینے بھر تنگی ترشی میں بسر کرتے تھے۔ اس
افلاس کے زمانے میں مڈل اسکول کے امتحان میں بورڈ کے پچیس ممتاز طلبہ کی فہرست میں
میرا نام بھی تیسرے مقام پر تھا۔ اس دوران والد صاحب ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ۔ میں
۱۹۵۲ء میں
کانپور چلا گیا جہاں بہت تکلیفیں جھیل کر دو برس تک ملازمت کی تلاش میں بھٹکنے اور
ناکام رہنے کے بعد بھوپال میں مڈل اسکول ٹیچر کی ملازمت ملی ۔ تقرر دور دراز کے
جنگلی اور دلدلی علاقے میں ہوا۔ متعصب اور تنگ نظر افسروں کی زیادتیوں کے خلاف
احتجاجاً تین برس بعد میں نے استعفیٰ دے دیا۔ والدین کی خواہش کے مطابق میں نے
دوبارہ ملازمت کی۔ پھر میری شادی ہوگئی۔ چودہ برس تک محکمہ جنگلات میں کلرک رہ کر
ایم اے، ایل ایل بی اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ قلیل تنخواہ میں والدین
اور بہنوں کی کفالت کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کی پرورش کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔
ملاقاتی : آپ نے رسائل کے لیے کب لکھنا شروع کیا؟
آپ کی ابتدائی تخلیقات کہاں شائع ہوئیں؟
مظفر حنفی :کہانیاں اور داستانیں پڑھنے کا میرا شوق لڑکپن ہی میں جنون
کی حد تک پہنچ گیا تھا۔ تیرہ برس کی عمر میں عین امتحان کے زمانے میں والد مرحوم
نے طلسم ہوش ربا پڑھتے ہوئے مجھے پکڑ لیا۔ خاصی سرزنش کی اور یہ بھی کہا کہ ایسا ہی
شوق ہے تو پڑھ لکھ کر اس لائق بنو کہ تمھاری تحریریں دوسرے پڑھیں ۔ چنانچہ اسی وقت
سے چل میرے خامے بسم الله ... دہلی سے بچوں کا رسالہ کھلونا نیا نیا جاری ہوا تھا۔
بچوں کے لیے میرے تحریر کردہ لطیفے کہانیاں نظمیں اسی پرچے میں چھپیں۔ پھر پھلواری
(دہلی)، ٹافی ، کلیاں (لکھنو)، دوست (کراچی) اور ہند و پاک کے دوسرے بچوں کے
رسالوں کے لیے میں نے خوب خوب لکھا۔ مقام شکر ہے کہ حکومت ہند کی مطبوعہ درسی
کتابوں سے لے کر دیگر کئی ریاستوں کی درسی کتابوں میں میری تخلیقات شامل ہیں۔ میں
اب بھی بچوں کے لیے نظمیں وغیرہ لکھتا رہتا ہوں۔
ملاقاتی: بچوں کے ادب میں کون سی خصوصیا ت
ضروری ہیں؟
مظفر حنفی :ہم اپنے بچوں کو جادوگروں، پریوں اور آسیبوں کی کہانیاں بہت
سنا چکے، آج کے بچوں میں بھی کچھ یقیناً ایسے ہوں گے جنھیں جادوئی کہانیاں پسند
ہوں گی۔ ہندوستان کی تقریباً ہر زبان میں ایسی تخلیقات پہلے ہی سے موجود ہیں۔ آج
بچوں کا ادب تخلیق کرنے والوں کو اپنے موضوعات اپنے آس پاس کی زندگی کے مختلف
گوشوں سے منتخب کرنے ہوں گے جن میں میرے بیان کردہ مسائل یا ان سے ملتے جلتے
ہزاروں دوسرے مسائل شامل ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ موجودہ ہندوستان کا بچہ جو پچھلی
صدی کے بچوں سے کہیں زیادہ ذہین اور باشعور ہے محض کو ہِ قاف اور طلسماتی کہانیوں
ہی سے دلچسپی رکھتا ہو۔
ملاقاتی : اگر ایسا ہے تو آپ کے خیال میں آج کل کے بچوں کے لیے کس قسم
کے موضوعات پر بچوں کا ادب لکھا جانا چاہیے؟
منظفر حنفی: گزشتہ برسوں میں راکیش شرما کی خلائی مہم میں بچوں نے جس
گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ، وہی میرے خیال کا منہ بولتاجواب ہے کہ آج بچے مصنوعی
سیاروں ، روبوٹ ، کمپیوٹر اور پن ڈُبّیوں کو وہی درجہ دیتے ہیں جو کل ماضی میں دیوؤں
اور پریوں کو حاصل تھا۔ آج کے بچے کا کوہ قاف خلا ہے اور پرستان انٹارکٹکا ہے۔ کوئی
بھی موضوع ، خواہ وہ سماجی برائیوں سے تعلق رکھتا ہو یا کوہ پیمائی سے، وہ سائنسی
مہم ہو یا جنگ جوئی ، بذات خود دلچسپ نہیں ہوا کرتا۔ اسے دلچسپ بنا تا ہے۔ ہمارا
برتاؤ اور سلیقہ۔ البتہ مقصدی کہانیاں لکھتے ہوئے ہمیں اس نکتے کو ضرور ملحوظ رکھنا
ہوگا کہ بچہ براہ راست اخلاقیات اور پند و نصیحت کا درس سننا پسند نہیں کرتا۔ یہ
کڑوی گولیاں اسے اسکول اور گھر میں کافی کھلائی جاچکی ہیں۔ کہانیوں کی کتابوں اور
رسالوں کا سہارا وہ تفریح کی غرض سے لیتا ہے ۔ چنانچہ ہمارے فنکاروں کو اپنے مقاصد
شہد و شکر میں لپیٹ کر پیش کرنے ہوں گے۔ مجھے سو فی صد یقین ہے کہ ایسی مقصدی کہانیاں
اور ادب جن میں بچوں کی دلچسپی کا وافر سامان بھی موجود ہوگا، واضح نصیحتوں کے
مقابلے میں کہیں زیادہ کارگر ثابت ہوں گے اور ان ہی کے بطن سے ایک صاف ستھرا، پر سکون ، ترقی یافتہ روشن ہندوستان برآمد ہوگا۔
ملاقاتی : دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں
کے ادب کی فنی و تدریسی صورت حال کیا ہے؟
منظرحنفی :دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بہت سی زبانیں رائج ہیں۔ میں
ان سے واقف نہیں ہوں البتہ انگریزی سے یاد اللہ ہے اور اس میں ادب اطفال کا انتہائی
عمدہ اور معیاری ذخیر ہ موجود ہے جو پیش کش کے لحاظ سے بھی بہت دلکش ہے۔
ملاقاتی : ہمارے نامور ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کا ادب
تخلیق کیا تھا، آج ہمارے مشہور قلم کار اس طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟
منظرحنفی:کوئی ایسا شاعر نہیں جس نے بچوں کے لیے ادب تخلیق نہ کیا ہو۔ مؔیر، سودؔا و غیرہ
کے علاوہ غالبؔ نے تو بچوں کے لیے قادر نامہ بھی لکھا ہے۔ ان کے بعد اقبالؔ کو لیجیے۔
اقبالؔ نے بچوں کے لیے کتنی اچھی نظمیں لکھی ہیں ۔ آگے چلیں توفیضؔ ، کرشن چندر
اور عصمت چغتائی ہیں۔ پھر حفؔیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، مرزا ادیب ، قرۃ العین
حیدر کے نام مجھے یاد آ رہے ہیں۔ ان کے جو دوسرے کارنامے ہیں ، ان کی جانب لوگوں
نے خوب توجہ کی لیکن ادب اطفال کو اپنی بنیاد بنانے والے ادبا و شعرا کو اس لائق
نہیں سمجھا گیا کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔ ادب اطفال کی جانب نئے لکھنے والے اس لیے
بھی کم مائل ہوتے ہیں کہ وہاں سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔
ملاقاتی : بچوں کے غیر لسانی ادب مثلاً
کارٹون، ویڈیوز ، اینی میشن فلمیں و غیرہ کی تعلیمی اہمیت کیا ہے؟ یہ بچوں کی
کردار سازی میں کس حد تک مفید ہیں؟
مظفر حنفی : بے شک تدریسی کام میں یہ سب بہت معاون ہیں البتہ کردار سازی
کے ساتھ یہ چیزیں بعض منفی اثرات بھی پیدا کرتی ہیں۔ بچے اکثر کامکس کے بہت عادی
ہو جاتے ہیں۔ اس طرح پڑھنے لکھنے کا انھیں وقت نہیں ملتا اور صحت پر بھی برا اثر
پڑتا ہے اس لیے ان کے دیکھنے یا پڑھنے میں توازن ضروری ہے۔
ملاقاتی: ٹیلی وژن اور موبائل فون کو ادب کے
لیے ایک چیلنج تصوّر کیا جارہا ہے۔ لوگ اور خاص طور پر طلبہ کتابوں سے دور ہوتے
جارہے ہیں۔ اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
مظفر حنفی : ٹیلی وژن اور موبائل فون وغیرہ صرف ادب کے لیے ہی نہیں،
پورے پرنٹ میڈیا کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں۔ آپ کی تشویش درست ہے۔ پچھلے لوگ کہتے
تھے چور کو نگہبان بنا دینے سے چوریاں رک جاتی ہیں۔ ایسا کچھ کیا جائے کہ تدریس و
تعلیم کے لیے الکٹرانک میڈیا ہی میں زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جائے۔
ملاقاتی : اُردو ادب اطفال میں آپ کا حصہ کیا اور کتنا ہے؟
مظفر حنفی :نثر میں کہانیوں کے میرے تین مجموعے نیلا ہیرا، بندروں کا
مشاعرہ، حلوہ چور ، بچوں کی نظموں کے چھے مجموعے کھیل کھیل میں ، نرسری کے گیت،
چٹخارے، مزے دار نظمیں، بچوں کے لیے، بول میری مینا' شائع ہو چکے ہیں۔
ملاقاتی : بچوں کے ادب کی ترقی کے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں؟
منظرحنفی :بچوں کے لیے لکھتے وقت مصنف کو خود بچہ بن جانا چاہیے یعنی
بچوں کی نفسیات سے اس کا بخوبی واقف ہونا ضروری ہے۔ مصنف کا مطالعہ، مشاہدہ اور
تجربہ بھی وسیع اور متنوع ہو۔ وہ تحریر میں بچوں کی دلچسپی کا وافر مواد مہیا کرے۔
ظرافت سے بھر پور کام لے۔ قدیم لوک کہانیوں اور داستانوں کو دور حاضر کی سائنسی ایجادات
سے آمیز کر کے ادب تحقیق کیا جائے تو کار آمد نتائج بر آمد ہوں گے۔ اردو میں نرسری
رائمز کی سخت کی ہے، لکھنے والوں کو اس طرف مائل کرنا چاہیے ۔ دیکھا جا رہا ہے کہ
زیادہ تر اساتذہ ہی بچوں کے لیے نصیحتوں کی پوٹ جیسی کہانیاں اور نظمیں لکھتے ہیں۔
بڑے اور مستند شاعروں اور ادبیوں کی ادب اطفال کی تخلیق میں شرکت لازمی ہے۔ بچوں
کے لیے شاعری کرنے والوں کے مشاعرے ہونے چاہئیں۔ بچوں کے لیے لکھنے والوں کو ٹیلی
وژن اور ریڈیو پر زیادہ مواقع فراہم کرناچاہئیں۔
ملاقاتی : اردو زبان کے طلبہ و طالبات کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
منظرحنفی :کامیابی کے لیے محنت ، خوب محنت کی ضرورت ہے، اور کوئی شارٹ
کٹ تلاش کرنا بے کار ہے۔ ہر نا کا می عارضی ہوتی ہے اور زیادہ کوشش کرنے کی نصیحت
کرتی ہے۔ اللہ بڑا منصف ہے۔
ملاقاتی : بچوں کے لیے لکھی گئی، اپنی کوئی
نمائندہ نظم عنایت فرمائیں۔
منظرحنفی : لیجیےسینے۔
دس روپے فی بوتل پانی
ہکّا
بکّا رہ گئی نا نی
اپنا
بچپن یا د کیا تو
ارزا
نی سی تھی ا رزا نی
با
رہ آ نے سیر اصلی گھی
گیا
رہ آ نے تو لہ چا ندی
کیلے
تھے دو پیسے درجن
چاول
پا نچ آ نے پنسیری
با
ئیسکوپ ٹکٹ ایک آ نہ
ایک
اٹھنّی کا پا جا مہ
اسکو
لوں میں فیس نہیں تھی
کا
لج دو روپے ما ہا نہ
نا
نا کی تنخواہ جو پو چھی
کل
پیتا لیس رو پیا نکلی
پینتا
لیس ہزار کے لگ بھگ
پا
تے ہیں ابّو اور امّی
0 Comments